Let’s do some business


🍂آئیے کاروبار کیجئے🍂


اپنے دیس کے دیسی کام :
ہمارے ملک کا زیادہ تر حصہ دیہات پہ مشتمل ہےاور دیہات میں وسیع پیمانے پہ کاروباری مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں ، پروڈکشن کی بنیاد پہ قائم کاروباری مراکز کے لئے جگہ کی وسعت ایک لازمی امر ہے اور یہ مقصد دیہات میں بخوبی پورا ہو سکتا ہے ، جگہ کے طول عرض کی وجہ سے وہاں پہ بہتر کام ہو سکتا ہے جیسے جانوروں کا باڑہ ، بکریوں کا فارم ، پولٹری ہاؤس ، انڈوں کا بزنس وغیرہ تو اپنے دیس کے یہ دیسی کام ہیں جو بہت اچھا بزنس دے سکتے ہیں ، اگر پروڈکشن فیلڈ دیہات میں بنائی جائے اور شوروم شہر میں ہو تو بھی دیہاتی علاقہ فائدہ مند رہتا ہے ، لیبر کی فراہمی بھی دیہات کی وجہ سے آسان رہتی ہے اور اخراجات بھی شہر کی بہ نسبت بہت کم ہوتے ہیں ،
انڈوں کا مرکز:
یہاں پہ میں عبدالمتین کی مثال دوں گا، اس کی یہ فیلڈ ہی نہیں تھی ، بنیادی طور پہ وہ ایک شہری بابو تھا ، اس کے دوست انوار کے مشورہ سے اس نے دیہات میں انڈوں کا مرکز بنا لینے کی ٹھان لی ،
انوار کے پاس اس کام کا تھوڑا بہت تجربہ اور ذاتی جگہ بھی تھی ، انہوں نے ساتھ مل کرکام کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کنال پہ مشتمل جگہ پہ کچی اینٹوں سے شیڈ کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ،جالیوں ہوا کی گزرگاہ مزدوروں کی رہائش کا انتظام ، بجلی اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بعد اب بیج کا انتظام کرنا تھا وہ بھی آسانی سے ہوگیا ۔۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟ یہ آپ کو میں آخر میں بتاؤں گا اس سے پہلے کچھ اور جان لیجئے۔۔
پاکستان میں مرغیوں کی چار اقسام ہیں
1) لئیر
2) برائیلر
3) گولڈن/مصری
4) دیسی
لئیرمرغی :
یہ سفید رنگ کی مرغی ہے اور خالصتا اس کو انڈوں کے لئے پالا جاتا ہے ، کم ازکم پالنے کی مقدار ایک ہزار چوزہ ہے ، موافق ماحول ، نگہداشت اور پیداوار کے اعتبار سے %80 پروڈکشن ہوجاتی ہے ، اس کی اوسطا عمر ڈھائی سال ہے ، عمومی طور پہ یہ مرغی کی نسل چھ ماہ میں پل بڑھ کر تیار ہو جاتی ہے ، اور ساتویں ماہ سے انڈے دینے لگ جاتی ہے ، اس کو پالنے کے لئے ابتدائی مراحل سے لے کر انڈے دینے تک کے مرحلوں تک فی مرغی تقریباً تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں ، %80 پروڈکشن کے حساب سے تقریباً روزانہ 800 انڈا تیار ملتا ہے ، انڈوں کے لئے باقاعدہ فارم میں ڈربے بنائے جاتے ہیں ، ماہانہ ایک ہزار مرغی سے کم وبیش 22 ہزار انڈے ملتے ہیں اور فی انڈا ہول سیل ریٹ پہ پانچ روپے میں فروخت ہوتا ہے ، اس طرح تین سے چار لاکھ تک کی سرمایہ کاری سے ماہانہ ایک لاکھ تک کی آمدنی حاصل ہونے لگتی ہے ، اگر گردشی اخراجات نکالے جائیں تو پھر بھی 50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ حاصل ہوجاتے ہیں اور یہ مسلسل دو سال تک حاصل ہوتے ہیں ۔۔ یہ مرغی انڈے دیتی ہے اس کا گوشت جلدی پکتا نہیں ہے ۔۔
برائیلر مرغی :
پاکستان میں پائی جانے والی مرغیوں کی اقسام میں سب سے زیادہ برائیلر ہے ، یہ سفید رنگ کی بھاری بھر کم مرغی ہوتی ہے ، پیداواری اعتبار سے برائیلر سب سے اوّل نمبر پہ ہے ، گوشت کی پیداوار اسی پہ منحصر ہے اور اس کا گوشت مخصوص ذائقہ اور جلدی پک جانے کی وجہ سے انتہائی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے ، مرغیوں کی یہ قسم انڈا دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے،
اس کے لئے مخصوص خوراک اور ادویات ہیں ، جن کا نظام اور شیڈول کو سمجھنے کے لئے انتہائی تجربے اور مخصوص آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے ، اس کی خریداری بذریعہ ایجنٹس ہوتی ہے ، مختلف اوقات میں اس کا بیج مختلف ریٹ سے ملتا ہے ، 40 سے 100 روپے تک کا ایک چوزہ آتا ہے اور پھر کیٹگری کے لحاظ سے اوّل درجے کا ریٹ کچھ زیادہ ہوتا ہے، 40 سے 50 دن میں یہ مرغی تیار ہوجاتی ہے ، عام طور پہ ایک ہزار مرغی کے فارم ہوتے ہیں اور ایک ہزار مرغی تیار کرنے اوسطا تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور ایک فلاگ سے تقریباً ایک لاکھ روپے تک کی بچت ہوجاتی ہے ، بعض اوقات بیماری کی وجہ سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات حد سے زیادہ منافع ہوتا ہے ۔۔عام طور پہ رمضان اور ربیع الاول میں اس کی کھپت بہت زیادہ ہے اور اکتوبر سے مارچ تک شادیوں کے سیزن میں بھی اس کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ، اگر قسمت اچھی ہو اور محنت جان توڑ ہو ، مناسب ادویات کا بروقت انتظام رہے تو یہ بہت منافع والا بزنس ہے ۔۔
گولڈن / مصری مرغی :
یہ لال ، سفید اور کالے رنگ کی ہوتی ہے اور یہ بہت لاڈ اور پیار سے پالی جاتی ہے ، پسندیدہ غذا کھاتی ہے ، اور اس کی اوسطا عمر چار سال ہے ، چھ ماہ کے بعد یہ انڈے دینے کے قابل ہوجاتی ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے ، گھروں میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے یہ گوشت پسند کیا جاتا ہے ، اس مرغی کو پالنے کے لئے ڈربے بنائے جاتے ہیں ، شہروں میں بھی چھوٹی سطح پہ اس کی پروڈکشن ممکن ہے ، اس مرغی سے افزائش نسل نہیں ہوتی تاہم اس کے انڈوں میں افزائش کی قوت موجود ہوتی ہے ، اس کے انڈے قدرے بھوری رنگت رکھتے ہیں ، مارکیٹ میں یہ انڈا بہت مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے ۔۔
اس مرغی کے اندر بیماری کا اثر بہت جلد ہوتا ہے ، اور پھر اس بیماری پہ کنٹرول انتہائی مشکل ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے چوزے مرنے لگتے ہیں ، بلوغت تک پہنچتے پہنچتے تقریباً نصف تعداد بیماری سے مرجاتی ہیے، یوں اس کی پروڈکشن %50 ہو پاتی ہے، لیکن بیماری پہ قابو پالیا جائے تو پنجاب کے دیہاتوں میں اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کہا جاتا ہے اور غالبا اس کا نام بھی گولڈن یا مصری اسی وجہ سے پڑا ہے۔۔
عام طور پہ اس کا انڈا مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا یہ ایڈوانس بکنگ پہ ملتا ہے ، ہول سیل مارکیٹ میں 96 روپے فی درجن فروخت ہوتا ہے ، سردیوں میں اس انڈے کا ریٹ بڑھ جاتا ہے لیکن بیماری کی شرح %50 ہونے کی وجہ سے اس مرغی کو بطور فارمر نہیں پالا جاتا اس لئے مارکیٹ کی ضرورت پوری نہیں ہوپاتی ہے ، یہ مرغی کی نسل سردیوں اور گرمیوں میں بغیر ناغہ کئے انڈا دیتی ہے ، بیماریوں کی صحیح علامتوں کی شناخت اور علاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی فارمر اس نسل کو پالنے کا رسک اٹھالے تو آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ متوقع ہے۔۔
دیسی مرغی :
یہ نایاب اور اعلی ترین مرغی ہے ، اس کی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے ، اس نسل کے مرغے عام طور پہ دیہاتی میلوں کی لڑائیوں میں استعمال ہوتے ہیں ، اور ہزاروں میں فروخت ہوتے ہیں ، اس کے انڈے نسل بڑھانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، اور یہ مرغی 10 سے 15 انڈوں کے بعد مستقل شور کرتے ہوئے بچوں کی پیداوار کے لئے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے ، گویا کہ زبان حال سے یہ کہہ رہی ہو کہ جو انڈے میں نے دئیے مجھے واپس کرو تاکہ تمہیں اپنی نسل کے نئے چوزے دے سکوں ،
اگر اسے انڈوں پہ بٹھا دیا جائے تو تھوڑی سی معمولی غذا پہ وہ مسلسل 21 دن انڈوں کو اپنے ممتا بھرے پروں میں چھپا کر رکھتی ہے اور پھر چوزے پیدا ہوتے ہیں ، تقریباً چار ماہ تک وہ اپنے چوزوں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور انہیں دانہ چگنا بھی سکھاتی ہے۔۔
اس مرغی کا وزن تین سے چار کلو تک ہوتا ہے لمبے قد کاٹھ کی وجہ سے اس کا گوشت بھی زیادہ اور لذیذ ہوتا ہے ، لیکن لوگ اس نسل کو صرف مرغوں کے حصول کے لئے پالتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت مہنگے داموں فروخت کئے جا سکیں۔۔۔انڈوں کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی اور مہنگی ہونے کے باوجود بھی اس مرغی کی فارمنگ پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی اس لئے اس کی نسل دھیرے دھیرے معدوم ہورہی ہے۔۔
اب عبد المتین کی کہانی بھی سن لیجئے
اس نے گرمیوں کے سیزن میں تین ہزار لئیر کے چوزے لئے اور کام شروع کر دیا، پہلا تجربہ تھا ممکن تھا وہ ناکام ہوجاتا مگر اپنے تجربہ کار ساتھی انوار کی بدولت وہ کامیاب ہوگیا ، مسلسل چھ ماہ کی محنت کے بعد اب مرغی انڈے دینے کے لئے تیار تھی ، اس وقت تک 9 لاکھ روپے صرف ہو چکے تھے ، عام حالات سے ہٹ کر %85 پروڈکشن ہوئی تھی ، اس لحاظ سے 25 سو 50 مرغیاں تھیں ، اور اس وقت سردیاں عین عروج پہ تھیں ، اور مرغیوں نے انڈے دینے شروع کر دئیے ، مسلسل آٹھ دن تک تقریباً ساری مرغیوں نے ڈربے سنبھال لئے اور اس دوران مارکیٹنگ سے ہول سیل گاہک بھی مل چکے تھے ، ساتویں دن میں 22 سو 75 انڈے جمع کئے گئے ، اس سے قبل ایک ہزار، 12 سو اور 15سو مرغیوں نے انڈے دینا شروع کر دئیے تھے اور دھیرے دھیرے تعداد پوری ہوگئی ، سات دن کے انڈے جمع کئے گئے تو تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ بنی ، سردیوں میں ہول سیل ریٹ سات روپے فی انڈا ہوتا ہے تو یوں 70 ہزار روپے وصول ہوئے ۔۔
اب روزانہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ، 2100 یا 100 اوپر نیچے روزانہ کے انڈے ہوتے اور روزانہ ہی چلے جاتے ، اوسطا دو ہزار انڈا لگا لیا جائے تو روزانہ کے 14 ہزار روپے کے انڈے فروخت ہورہے تھے ، اور تیس دنوں میں 4 لاکھ 20 ہزار روپے کم وبیش موصول ہوگئے ، اس طرح سردیوں کے چھ مہینوں میں اس مد سے حاصل ہونے والی رقم 25 لاکھ کے لگ بھگ رہی ، جبکہ سردیوں میں مرغیوں پہ ہونے والا خرچ پانچ لاکھ کے لگ بھگ رہا ، اب گر میوں کا سیزن آگیا ، اس کے پاس پچیس لاکھ روپے جمع تھے اس نے 18 لاکھ روپے سائیڈ پہ کر کے چھ ہزار چوزوں کے لئے ایک اور فارم بنا لیا اس دفعہ زمین بھی ٹھیکے پہ لی گئی ۔۔اور بقیہ سات لاکھ روپے اس نے ایک نئے پولٹری فارم اور گرمیوں کے فارم کے اخراجات کے لئے رکھ لئے، انہوں نے ایک ہال نما گودام کرایہ پہ لیا اور گرمیوں میں حاصل ہونے والے انڈے سٹاک کرنا شروع کئے، گودام میں ڈیڑھ ٹن کا اے سی اور پانچ کولر پنکھے لگائے ، چھت کے پنکھے اس کے علاوہ تھے ، رات کو گودام کی کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں تاکہ انڈے گرمی میں خراب نہ ہوں ، اس طرح دو طرفہ کام چلتا رہا ، گرمیوں کے چھ ماہ سے حاصل ہونے والے انڈوں کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ کے لگ بھگ تھی ، اب سردیوں میں یہ سٹاک سیل کیا جانے لگا ، %50 تازہ انڈے اور %50 سٹاک سے فروخت کئے جانے لگے ، روزانہ تقریباً پانچ ہزار انڈا فروخت ہوتا ، اور شہر بھر کی مارکیٹوں میں انڈا پہنچنے لگا۔۔سردیوں کے سیزن میں حاصل ہونے والے پونے دو لاکھ انڈے اور گرمیوں کا سٹاک ساتھ ملا کر ٹوٹل حاصل ہونے والی مقدار تقریباً تین لاکھ 20 ہزار تھی جو کہ تقریباً 22 لاکھ روپے میں فروخت ہوئے
جبکہ انہی سردیوں میں تقریباً 4 ہزار 8 سو انڈے روزانہ کی بنیاد پہ حاصل ہوتے رہے ، اگر چھ مہینوں کی اوسط مقدار نکالی جائے تو حاصل ہونے والے انڈوں کی مقدار تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ رہی ۔۔اور حاصل ہونے والی رقم تقریباً 59 لاکھ 50 ہزار تھی۔۔
بنیادی سرمایہ 27 لاکھ روپے اور گرمیوں کے اخراجات کے لئے پانچ لاکھ روپے الگ کر لئے گئے،
اب اس کے پاس تمام اخراجات نکال کر کل بچت کی رقم 27 لاکھ 50 ہزار موجود تھی ،
اور اس رقم سے سپلائی کے ایک شہہ زار ڈالا ، اور خود کے لئے ایک کلٹس لی گئی بچ جانے والے رقم سے تین ہزار چوزوں کے لئے ایک اور فارم بنانے کا پلان تھا ، یوں ان کے پاس 12 ہزار مرغیاں ہوجاتیں، چھ ہزار کا فارم موجود تھا جبکہ پہلے فلاگ کی مرغیاں فی کس 100 روپے میں فروخت کردی گئیں تو یہ فارم بھی تھا مزید ایک اور فارم بنانے سے ان کا 12 ہزار مرغیوں کا ٹارگٹ پورا ہوسکتا تھا نیز اب کی بار چھ ہزار چوزوں کی وجہ سے ایک اور گودام بھی درکار تھا ۔۔
ان کا ہدف یہ تھا کہ ہمیں انڈوں کی مد سے روزانہ کی ایک لاکھ روپے وصولی ہو اور توقع کے مطابق اگر قسمت نے ساتھ دیا تو وہ یہ ہدف اسی تیسرے سال کے اختتام تک پورا کرنے والے ہیں ۔۔
یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو ساری کائنات اس کی کامیابی میں جت جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ کام کرنے کی لگن ہو اور خود کو بدلنے اور زمانے تک کو قید کر لینے کا ہنر موجود ہو تو آنے والے ہر طوفان کا مقابلہ ممکن ہے ، عبد المتین نے محض تین سالوں میں اس قدر ترقی کر لینی ہے کہ اس کی روزانہ کی آمدنی اخراجات نکال کر ایک 70 ہزار سے متجاوز ہوگی ، آپ بھی کوئی ایسا آئیڈیا سوچیئے اور اس میں خود کو کھپا دیجئے ، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور
کامیابی آپ کا مقدر ۔۔۔۔
(جاری ہے)
نوٹ : کچھ ساتھیوں کی طرف سے میسیجز آرہے ہیں کہ ہم تو ہنر مند ہیں یہ لاکھوں کا گیم ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ، آپ کے آئیڈیاز کو فالو کریں تو لاکھوں روپے درکار ہوں گے اس لئے ہم ہنر مندوں کے بارے میں کچھ سوچیئے

Leave a comment

Up ↑