Transfatty acids


(مصنوعی چکنائی)
مصنوعی چکنائی کا استعمال، پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل

سنہ 2018 میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کو مضرصحت ٹرانس فیٹی ایسڈ کا 2023 ء تک خاتمہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سبب یہ ہے کہ ان فیٹی ایسڈ سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ امراض قلب کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اترنے والے انسانوں کی شرح سالانہ 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 16 میں سے 9 ممالک میں ’ ٹرانس فیٹی ایسڈ ‘ سے پیدا ہونے والے امراض قلب کے باعث اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا ، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ یہ ممالک بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔
تاہم 43 ممالک نے ، جن کی مجموعی آبادی 2 ارب 80کروڑ ہے، موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کی ہیں تاہم دنیا کا زیادہ تر حصہ اب بھی غیر محفوظ ہے
ٹرانس فیٹ ایسڈ کیا ہے ؟

ٹرانس فیٹ کو ’ ٹرانس اَن سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز‘ یا پھر ’ ٹرانس فیٹی ایسڈز ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف سبزیوں وغیرہ سے نکالا جانے والی ایسی چکنائی ہوتی ہے جو ڈبہ بند کھانوں ، کیکس ، ہاٹ چاکلیٹس وغیرہ میں شامل ہوتی ہے تاکہ وہ طویل مدت تک دکانوں کی شیلفوں میں محفوظ رہیں۔ جب سبزیوں وغیرہ سے ٹرانس فیٹ نکالا جاتا ہے، تب اس کی شکل تیل جیسی ہوتی ہے۔

پھر اسے ٹھوس چکنائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں ایسی ٹھوس چکنائی مارجرین اور بناسپتی گھی کی صورت میں بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔

سبزیوں سے نکالی جانے والی چکنائی (بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ) کا استعمال قریباً 100برس قبل شروع ہوا۔1950ء کے بعد اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ اس وقت کی حکومتیں بھی جانتی تھیں کہ ٹرانس فیٹ میں غذائیت برائے نام بھی نہیں ہوتی ، بلکہ اسے صرف سستا ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
آج تک دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرانس فیٹ کے انسانی صحت کے لئے نقصانات واضح ہونے کے باوجود اسے استعمال کیا جاتا رہا ۔
ء میں امریکا میں، امراض قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرنے والے 30000 افراد کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔
تب ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2006ء تک اس مصنوعی چکنائی کے سبب مرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد حکومت اس مصنوعی چربی کے استعمال کے خلاف فعال ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی چکنائی کے سبب جسم میں غیر مفید کو لیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ فیٹی ایسڈز ریسٹورنٹس میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں لوگ ایسے ریسٹورنٹس میں زیادہ کھاتے پیتے ہیں ، وہاں موٹاپا ، بلند فشار خون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے امراض زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سبب موٹاپا بالخصوص پیٹ بڑھنے کا مرض لاحق ہوتا ہے۔
آرکائیو آف نیورولوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیچوریٹیڈ فیٹ اور اَن سیچوریٹیڈ فیٹ (ٹرانس فیٹ ‘ کی وجہ سے الزائمر کا مرض پیدا ہوتا ہے
2006ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے سبب پراسٹیٹ کینسر بھی ہوتا ہے۔ ’ یورپین پروسپیکٹو انویسٹی گیشن ان ٹو کینسر اینڈ نیوٹریشن ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال سیچھاتی کے کینسر کے خطرات میں 75 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔
سن دوہزار سات میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاربوہائیڈریٹس کے بجائے ٹرانس فیٹ سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش خواتین کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں بانجھ پن کے خطرات 73 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
عالمہ ادارہ صحت ایک عرصہ سے مصنوعی چکنائی کے زیادہ استعمال سے خبردار کررہا ہے
خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا۔ انھیں کہا گیا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ڈنمارک دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ٹرانس فیٹ کے خلاف قانون منظور کیا ، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے کم مقدار میں ٹرانس فیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے یعنی محض ایک فیصد ۔ ڈینش حکومت کی کوششوں کا نتیجہ یوں نکلا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں امراض قلب میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
یورپی یونین نے بھی اپنے تمام خطوں میں ٹرانس فیٹ کے2 فیصد فی 100 گرام سے بھی کم استعمال کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی
سویڈن بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہونے جارہا ہے جہاں مصنوعی چکنائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔
اگرچہ پاکستان کی وزارت صحت نے بھی عالمی ادارہ صحت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جون2023ء تک ٹرانس فیٹ کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائے گی
دنیا بھر میں ٹرانس فیٹ کے خلاف شعور بلند ہونے کے باوجود یہاں کے ماہرین صحت بھی ایسی پالیسیاں تیار کرنے پر زور نہیں دے رہے جن کے ذریعے خوراک تیار کرنے والوں کو 2فیصد فی 100 گرام کے پیمانے کی پابندی کروائی جائے۔
ہماری حکومتیں دیگر ’’ زیادہ اہم امور‘‘ میں مصروف رہتی ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے پالیسیاں تیار کرنے اور نافذ کرنے کے لئے فرصت نہیں
SaleemBhutta

Leave a comment

Up ↑