How to Tame (Train) Your Budgie


One question we get asked fairly often is how to tame a Budgie. We’ve always found this a bit of a strange enquiry because like most birds that live in flocks in the wild, Budgies are very sociable and enjoy human company. As such, they don’t need to be tamed per se.

In fact, we believe that most people are actually asking how they can get their Budgie used to their new surroundings, and how to train it. Those are very different questions, and ones that are worthy of some consideration.

https://johnstonandjeff.co.uk/how-to-tame-train-your-budgie/

Let’s do some business


🍂آئیے کاروبار کیجئے🍂


اپنے دیس کے دیسی کام :
ہمارے ملک کا زیادہ تر حصہ دیہات پہ مشتمل ہےاور دیہات میں وسیع پیمانے پہ کاروباری مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں ، پروڈکشن کی بنیاد پہ قائم کاروباری مراکز کے لئے جگہ کی وسعت ایک لازمی امر ہے اور یہ مقصد دیہات میں بخوبی پورا ہو سکتا ہے ، جگہ کے طول عرض کی وجہ سے وہاں پہ بہتر کام ہو سکتا ہے جیسے جانوروں کا باڑہ ، بکریوں کا فارم ، پولٹری ہاؤس ، انڈوں کا بزنس وغیرہ تو اپنے دیس کے یہ دیسی کام ہیں جو بہت اچھا بزنس دے سکتے ہیں ، اگر پروڈکشن فیلڈ دیہات میں بنائی جائے اور شوروم شہر میں ہو تو بھی دیہاتی علاقہ فائدہ مند رہتا ہے ، لیبر کی فراہمی بھی دیہات کی وجہ سے آسان رہتی ہے اور اخراجات بھی شہر کی بہ نسبت بہت کم ہوتے ہیں ،
انڈوں کا مرکز:
یہاں پہ میں عبدالمتین کی مثال دوں گا، اس کی یہ فیلڈ ہی نہیں تھی ، بنیادی طور پہ وہ ایک شہری بابو تھا ، اس کے دوست انوار کے مشورہ سے اس نے دیہات میں انڈوں کا مرکز بنا لینے کی ٹھان لی ،
انوار کے پاس اس کام کا تھوڑا بہت تجربہ اور ذاتی جگہ بھی تھی ، انہوں نے ساتھ مل کرکام کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کنال پہ مشتمل جگہ پہ کچی اینٹوں سے شیڈ کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ،جالیوں ہوا کی گزرگاہ مزدوروں کی رہائش کا انتظام ، بجلی اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بعد اب بیج کا انتظام کرنا تھا وہ بھی آسانی سے ہوگیا ۔۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟ یہ آپ کو میں آخر میں بتاؤں گا اس سے پہلے کچھ اور جان لیجئے۔۔
پاکستان میں مرغیوں کی چار اقسام ہیں
1) لئیر
2) برائیلر
3) گولڈن/مصری
4) دیسی
لئیرمرغی :
یہ سفید رنگ کی مرغی ہے اور خالصتا اس کو انڈوں کے لئے پالا جاتا ہے ، کم ازکم پالنے کی مقدار ایک ہزار چوزہ ہے ، موافق ماحول ، نگہداشت اور پیداوار کے اعتبار سے %80 پروڈکشن ہوجاتی ہے ، اس کی اوسطا عمر ڈھائی سال ہے ، عمومی طور پہ یہ مرغی کی نسل چھ ماہ میں پل بڑھ کر تیار ہو جاتی ہے ، اور ساتویں ماہ سے انڈے دینے لگ جاتی ہے ، اس کو پالنے کے لئے ابتدائی مراحل سے لے کر انڈے دینے تک کے مرحلوں تک فی مرغی تقریباً تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں ، %80 پروڈکشن کے حساب سے تقریباً روزانہ 800 انڈا تیار ملتا ہے ، انڈوں کے لئے باقاعدہ فارم میں ڈربے بنائے جاتے ہیں ، ماہانہ ایک ہزار مرغی سے کم وبیش 22 ہزار انڈے ملتے ہیں اور فی انڈا ہول سیل ریٹ پہ پانچ روپے میں فروخت ہوتا ہے ، اس طرح تین سے چار لاکھ تک کی سرمایہ کاری سے ماہانہ ایک لاکھ تک کی آمدنی حاصل ہونے لگتی ہے ، اگر گردشی اخراجات نکالے جائیں تو پھر بھی 50 سے 60 ہزار روپے ماہانہ حاصل ہوجاتے ہیں اور یہ مسلسل دو سال تک حاصل ہوتے ہیں ۔۔ یہ مرغی انڈے دیتی ہے اس کا گوشت جلدی پکتا نہیں ہے ۔۔
برائیلر مرغی :
پاکستان میں پائی جانے والی مرغیوں کی اقسام میں سب سے زیادہ برائیلر ہے ، یہ سفید رنگ کی بھاری بھر کم مرغی ہوتی ہے ، پیداواری اعتبار سے برائیلر سب سے اوّل نمبر پہ ہے ، گوشت کی پیداوار اسی پہ منحصر ہے اور اس کا گوشت مخصوص ذائقہ اور جلدی پک جانے کی وجہ سے انتہائی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے ، مرغیوں کی یہ قسم انڈا دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے،
اس کے لئے مخصوص خوراک اور ادویات ہیں ، جن کا نظام اور شیڈول کو سمجھنے کے لئے انتہائی تجربے اور مخصوص آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے ، اس کی خریداری بذریعہ ایجنٹس ہوتی ہے ، مختلف اوقات میں اس کا بیج مختلف ریٹ سے ملتا ہے ، 40 سے 100 روپے تک کا ایک چوزہ آتا ہے اور پھر کیٹگری کے لحاظ سے اوّل درجے کا ریٹ کچھ زیادہ ہوتا ہے، 40 سے 50 دن میں یہ مرغی تیار ہوجاتی ہے ، عام طور پہ ایک ہزار مرغی کے فارم ہوتے ہیں اور ایک ہزار مرغی تیار کرنے اوسطا تین سے ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور ایک فلاگ سے تقریباً ایک لاکھ روپے تک کی بچت ہوجاتی ہے ، بعض اوقات بیماری کی وجہ سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات حد سے زیادہ منافع ہوتا ہے ۔۔عام طور پہ رمضان اور ربیع الاول میں اس کی کھپت بہت زیادہ ہے اور اکتوبر سے مارچ تک شادیوں کے سیزن میں بھی اس کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ، اگر قسمت اچھی ہو اور محنت جان توڑ ہو ، مناسب ادویات کا بروقت انتظام رہے تو یہ بہت منافع والا بزنس ہے ۔۔
گولڈن / مصری مرغی :
یہ لال ، سفید اور کالے رنگ کی ہوتی ہے اور یہ بہت لاڈ اور پیار سے پالی جاتی ہے ، پسندیدہ غذا کھاتی ہے ، اور اس کی اوسطا عمر چار سال ہے ، چھ ماہ کے بعد یہ انڈے دینے کے قابل ہوجاتی ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے ، گھروں میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے یہ گوشت پسند کیا جاتا ہے ، اس مرغی کو پالنے کے لئے ڈربے بنائے جاتے ہیں ، شہروں میں بھی چھوٹی سطح پہ اس کی پروڈکشن ممکن ہے ، اس مرغی سے افزائش نسل نہیں ہوتی تاہم اس کے انڈوں میں افزائش کی قوت موجود ہوتی ہے ، اس کے انڈے قدرے بھوری رنگت رکھتے ہیں ، مارکیٹ میں یہ انڈا بہت مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے ۔۔
اس مرغی کے اندر بیماری کا اثر بہت جلد ہوتا ہے ، اور پھر اس بیماری پہ کنٹرول انتہائی مشکل ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے چوزے مرنے لگتے ہیں ، بلوغت تک پہنچتے پہنچتے تقریباً نصف تعداد بیماری سے مرجاتی ہیے، یوں اس کی پروڈکشن %50 ہو پاتی ہے، لیکن بیماری پہ قابو پالیا جائے تو پنجاب کے دیہاتوں میں اسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کہا جاتا ہے اور غالبا اس کا نام بھی گولڈن یا مصری اسی وجہ سے پڑا ہے۔۔
عام طور پہ اس کا انڈا مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا یہ ایڈوانس بکنگ پہ ملتا ہے ، ہول سیل مارکیٹ میں 96 روپے فی درجن فروخت ہوتا ہے ، سردیوں میں اس انڈے کا ریٹ بڑھ جاتا ہے لیکن بیماری کی شرح %50 ہونے کی وجہ سے اس مرغی کو بطور فارمر نہیں پالا جاتا اس لئے مارکیٹ کی ضرورت پوری نہیں ہوپاتی ہے ، یہ مرغی کی نسل سردیوں اور گرمیوں میں بغیر ناغہ کئے انڈا دیتی ہے ، بیماریوں کی صحیح علامتوں کی شناخت اور علاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی فارمر اس نسل کو پالنے کا رسک اٹھالے تو آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ متوقع ہے۔۔
دیسی مرغی :
یہ نایاب اور اعلی ترین مرغی ہے ، اس کی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے ، اس نسل کے مرغے عام طور پہ دیہاتی میلوں کی لڑائیوں میں استعمال ہوتے ہیں ، اور ہزاروں میں فروخت ہوتے ہیں ، اس کے انڈے نسل بڑھانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، اور یہ مرغی 10 سے 15 انڈوں کے بعد مستقل شور کرتے ہوئے بچوں کی پیداوار کے لئے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے ، گویا کہ زبان حال سے یہ کہہ رہی ہو کہ جو انڈے میں نے دئیے مجھے واپس کرو تاکہ تمہیں اپنی نسل کے نئے چوزے دے سکوں ،
اگر اسے انڈوں پہ بٹھا دیا جائے تو تھوڑی سی معمولی غذا پہ وہ مسلسل 21 دن انڈوں کو اپنے ممتا بھرے پروں میں چھپا کر رکھتی ہے اور پھر چوزے پیدا ہوتے ہیں ، تقریباً چار ماہ تک وہ اپنے چوزوں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور انہیں دانہ چگنا بھی سکھاتی ہے۔۔
اس مرغی کا وزن تین سے چار کلو تک ہوتا ہے لمبے قد کاٹھ کی وجہ سے اس کا گوشت بھی زیادہ اور لذیذ ہوتا ہے ، لیکن لوگ اس نسل کو صرف مرغوں کے حصول کے لئے پالتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت مہنگے داموں فروخت کئے جا سکیں۔۔۔انڈوں کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی اور مہنگی ہونے کے باوجود بھی اس مرغی کی فارمنگ پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی اس لئے اس کی نسل دھیرے دھیرے معدوم ہورہی ہے۔۔
اب عبد المتین کی کہانی بھی سن لیجئے
اس نے گرمیوں کے سیزن میں تین ہزار لئیر کے چوزے لئے اور کام شروع کر دیا، پہلا تجربہ تھا ممکن تھا وہ ناکام ہوجاتا مگر اپنے تجربہ کار ساتھی انوار کی بدولت وہ کامیاب ہوگیا ، مسلسل چھ ماہ کی محنت کے بعد اب مرغی انڈے دینے کے لئے تیار تھی ، اس وقت تک 9 لاکھ روپے صرف ہو چکے تھے ، عام حالات سے ہٹ کر %85 پروڈکشن ہوئی تھی ، اس لحاظ سے 25 سو 50 مرغیاں تھیں ، اور اس وقت سردیاں عین عروج پہ تھیں ، اور مرغیوں نے انڈے دینے شروع کر دئیے ، مسلسل آٹھ دن تک تقریباً ساری مرغیوں نے ڈربے سنبھال لئے اور اس دوران مارکیٹنگ سے ہول سیل گاہک بھی مل چکے تھے ، ساتویں دن میں 22 سو 75 انڈے جمع کئے گئے ، اس سے قبل ایک ہزار، 12 سو اور 15سو مرغیوں نے انڈے دینا شروع کر دئیے تھے اور دھیرے دھیرے تعداد پوری ہوگئی ، سات دن کے انڈے جمع کئے گئے تو تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ بنی ، سردیوں میں ہول سیل ریٹ سات روپے فی انڈا ہوتا ہے تو یوں 70 ہزار روپے وصول ہوئے ۔۔
اب روزانہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ، 2100 یا 100 اوپر نیچے روزانہ کے انڈے ہوتے اور روزانہ ہی چلے جاتے ، اوسطا دو ہزار انڈا لگا لیا جائے تو روزانہ کے 14 ہزار روپے کے انڈے فروخت ہورہے تھے ، اور تیس دنوں میں 4 لاکھ 20 ہزار روپے کم وبیش موصول ہوگئے ، اس طرح سردیوں کے چھ مہینوں میں اس مد سے حاصل ہونے والی رقم 25 لاکھ کے لگ بھگ رہی ، جبکہ سردیوں میں مرغیوں پہ ہونے والا خرچ پانچ لاکھ کے لگ بھگ رہا ، اب گر میوں کا سیزن آگیا ، اس کے پاس پچیس لاکھ روپے جمع تھے اس نے 18 لاکھ روپے سائیڈ پہ کر کے چھ ہزار چوزوں کے لئے ایک اور فارم بنا لیا اس دفعہ زمین بھی ٹھیکے پہ لی گئی ۔۔اور بقیہ سات لاکھ روپے اس نے ایک نئے پولٹری فارم اور گرمیوں کے فارم کے اخراجات کے لئے رکھ لئے، انہوں نے ایک ہال نما گودام کرایہ پہ لیا اور گرمیوں میں حاصل ہونے والے انڈے سٹاک کرنا شروع کئے، گودام میں ڈیڑھ ٹن کا اے سی اور پانچ کولر پنکھے لگائے ، چھت کے پنکھے اس کے علاوہ تھے ، رات کو گودام کی کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں تاکہ انڈے گرمی میں خراب نہ ہوں ، اس طرح دو طرفہ کام چلتا رہا ، گرمیوں کے چھ ماہ سے حاصل ہونے والے انڈوں کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ کے لگ بھگ تھی ، اب سردیوں میں یہ سٹاک سیل کیا جانے لگا ، %50 تازہ انڈے اور %50 سٹاک سے فروخت کئے جانے لگے ، روزانہ تقریباً پانچ ہزار انڈا فروخت ہوتا ، اور شہر بھر کی مارکیٹوں میں انڈا پہنچنے لگا۔۔سردیوں کے سیزن میں حاصل ہونے والے پونے دو لاکھ انڈے اور گرمیوں کا سٹاک ساتھ ملا کر ٹوٹل حاصل ہونے والی مقدار تقریباً تین لاکھ 20 ہزار تھی جو کہ تقریباً 22 لاکھ روپے میں فروخت ہوئے
جبکہ انہی سردیوں میں تقریباً 4 ہزار 8 سو انڈے روزانہ کی بنیاد پہ حاصل ہوتے رہے ، اگر چھ مہینوں کی اوسط مقدار نکالی جائے تو حاصل ہونے والے انڈوں کی مقدار تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ رہی ۔۔اور حاصل ہونے والی رقم تقریباً 59 لاکھ 50 ہزار تھی۔۔
بنیادی سرمایہ 27 لاکھ روپے اور گرمیوں کے اخراجات کے لئے پانچ لاکھ روپے الگ کر لئے گئے،
اب اس کے پاس تمام اخراجات نکال کر کل بچت کی رقم 27 لاکھ 50 ہزار موجود تھی ،
اور اس رقم سے سپلائی کے ایک شہہ زار ڈالا ، اور خود کے لئے ایک کلٹس لی گئی بچ جانے والے رقم سے تین ہزار چوزوں کے لئے ایک اور فارم بنانے کا پلان تھا ، یوں ان کے پاس 12 ہزار مرغیاں ہوجاتیں، چھ ہزار کا فارم موجود تھا جبکہ پہلے فلاگ کی مرغیاں فی کس 100 روپے میں فروخت کردی گئیں تو یہ فارم بھی تھا مزید ایک اور فارم بنانے سے ان کا 12 ہزار مرغیوں کا ٹارگٹ پورا ہوسکتا تھا نیز اب کی بار چھ ہزار چوزوں کی وجہ سے ایک اور گودام بھی درکار تھا ۔۔
ان کا ہدف یہ تھا کہ ہمیں انڈوں کی مد سے روزانہ کی ایک لاکھ روپے وصولی ہو اور توقع کے مطابق اگر قسمت نے ساتھ دیا تو وہ یہ ہدف اسی تیسرے سال کے اختتام تک پورا کرنے والے ہیں ۔۔
یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو ساری کائنات اس کی کامیابی میں جت جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ کام کرنے کی لگن ہو اور خود کو بدلنے اور زمانے تک کو قید کر لینے کا ہنر موجود ہو تو آنے والے ہر طوفان کا مقابلہ ممکن ہے ، عبد المتین نے محض تین سالوں میں اس قدر ترقی کر لینی ہے کہ اس کی روزانہ کی آمدنی اخراجات نکال کر ایک 70 ہزار سے متجاوز ہوگی ، آپ بھی کوئی ایسا آئیڈیا سوچیئے اور اس میں خود کو کھپا دیجئے ، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور
کامیابی آپ کا مقدر ۔۔۔۔
(جاری ہے)
نوٹ : کچھ ساتھیوں کی طرف سے میسیجز آرہے ہیں کہ ہم تو ہنر مند ہیں یہ لاکھوں کا گیم ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ، آپ کے آئیڈیاز کو فالو کریں تو لاکھوں روپے درکار ہوں گے اس لئے ہم ہنر مندوں کے بارے میں کچھ سوچیئے

Haleem ya daleem?


کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حلیم کو کسی اور نام سے پکارنا چاہئے کیونکہ ” حلیم” اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور حلیم بنانے کے افعال کے ساتھ اس لفظ کا استعمال گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔

امید ہےکہ وہ اپنے مقدمات کے لئے “وکیل” تو نہیں کرتے ہوں گے کہ انسان کو وکیل کیسے کہا جا سکتا ہے؟
“حکیم” سے دوا بھی نہیں لیتے ہوں گے کہ انسان حکیم کیسے ہو سکتا ہے؟

نہ تو ان کے بچے مدرسوں میں “اوّل” آتے ہوں گے اور نہ ہی ان کے پاس “آخر” میں کچھ “باقی” رہ جاتا ہوگا۔ کیونکہ یہ تمام بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں۔ “قابض”
“شہید”
” عظیم”
یہ بھی اللّه کے نام ہیں
کوئی انسان کسی کا ” والی” ” وارث” نہیں کہلائےگا کیوں کہ یہ دونوں بھی اسمائے الہٰی ہیں۔ “ظاہر” و ” باطن” بھی انسانوں کے لئے ممنوع قرار پائیں گے۔ کوئی عمل یا کاروبار ” نافع”بھی نہ بولا جائے گا


صدیوں سے علمائے اسلام حضرت عثمان کو ” غنی” لکھ رہے ہیں۔
اور اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آقائے دوجہاں، نبی آخر الزّماں نے تمام عمر اپنے عزیز ترین صحابی، اور داماد کو “علی” کے نام سے پکارا ہے جبکہ غنی اور علی بھی اللّه کے صفاتی نام ہیں

نہ کسی کے مرنے پر کوئی “وارث” ہوگا.کہ یہ بھی اللہ پاک کا نام ہے
اور نہ کسی حادثے یا کامیابی کو”عظیم”کہیں گے

حلیم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تحمل، برداشت کے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے۔ اور یہی لفظ حلیم اردو میں ایک خاص قسم کے کھانے کا نام ہے، ایک لفظ کے متعدد معنی ہوسکتے ہیں یا دو مختلف زبانوں کے الفاظ ایک جیسے ہوسکتے ہیں، قرینہ سے جو معنی متعین ہوجائے وہی معنی مراد ہوں گے، بسا اوقات دوسرے معنی کا تصور یا تخیل بے ادبی قرار پاتا ہے،

اب جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے تو
اردو زبان میں حلیم جس کھانے کو کہا جاتا ہے اسے حلیم کہہ بھی سکتے ہیں اور حلیم کو کھا بھی سکتے ہیں۔لیکن ضروری نہیں کے آپ بھی میری بات سے متفق ہوں اس لئے اپنی راے کا اظہار کمنٹس کی صورت میں ضرور کیجئے گا تاکہ ہماری اصلاح ہو سکے

Benefits of lemon grass


لیمن گراس گے فوائد۔۔۔


گھر میں لیمن گراس اگائیے۔۔ غذا بھی، دوا بھی،شفا بھی
یہ ایک خوبصورت پودا ہے جسے آپ آسانی اپنے گھریلو باغیچہ یا گملہ میں لگا سکتے ہیں اور سالہا سال اس سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں،جھاڑی نما اس پودے کا اصل وطن چین اور اس کے گردو نواح کے ممالک ہیں بحرحل اب پاکستان کی ہر نرسری سے آسانی سے دستیاب ہے اور اگر آپ اس کے فوائد سے آگاہ ہو جائیں تو اس کو ہر حال میں خریدنا چاہیں گے مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہ ہمارے” مطلوبہ میعار” پر بھی پورا اترتا ہے یعنی انتہائی سستا ۔میرا خیال ہے گملہ میں لگا ایک فٹ سے بڑا پودا آپ کو سو روپے سے بھی کم میں مل جائے گا،بعد میں بھی اس کی دیکھ بال انتہائی آسان ہے ،عام پودوں کی ہی طرح اس کو پانی دیا جاسکتا ہے اور اہم اور بڑی بات یہ ہے اس کی خوشبو سے مکھی مچھر بھی قریب نہیں آتے۔


طبی نقطہ نظر سے لیمن گراس کے بے شمار فائدے سامنے آ رہے ہیں۔ سرطان جیسے مرض میں بھی مفید ہے۔ آپ بھی اسے آزمائیے۔ چاولوں میں ڈال کر دیکھیے۔ اس کی چائے بنا کر خود بھی پئیں اور گھر والوں کو بھی دیں۔ دو تین چھوٹی الائچیاں ڈال کر پانی پکائیں،لیمن گراس ڈالیں اور پھر چینی ڈال کر پئیں تو آپ خود حیران ہوں گی۔ جسم کی تھکن دور ہو جائے گی، کھانا ہضم ہوگا۔ منہ میں اس کا ذائقہ کافی دیر تک رہے گا۔لیمن گراس کا قہوہ چڑچڑاپن ، دماغ پر بوجھ، تنائو، پریشانی دور کرتا ہے۔ پیٹ سے گیس کم کرنے اور مزید آنتوں میں گیس کی تشکیل کو روکنے کے لئے مدد کرتا ہے۔


ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کیلئے لیمن گراس کا جوس استعمال کیاجاتا ہے۔کیل مہاسوں کوکم کرنے میں ایک ریفریشر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے جوس سے دوران خون حیض کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ جسم میں ضرورت سے زیادہ چربی سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے ،جسم کی بدبو مختلف بیماریوں کے علاج میں مدد کر سکتے ہیں اورگرمی کو کم کرنے میں مفید ہے، جوس پیشاب کی نالی میں انفیکشن اور زخموں کے علاج میں مفید ہے،ہمارے جسم کے دیگر اعضا کو صاف اور زہریلا مادہ کو ختم کر سکتے ہیں۔خواتین کی صحت جلداورجسم کی بدبو جیسی بیماریوں کے علاج میں مدد ملتی ہے،چہرے کے کیل مہاسے ختم ہوجاتے ہیں چہرہ خوبصورت شاداب ہوجا تا ہے۔


لیمن گراس کا تیل گرم اثر دینے کے لئے پورے جسم میں مساج کیا جاسکتا ہے، اس کاتیل جوڑوں کا درد اور پٹھوں کے درد کودور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں ،جوڑوں کے درد اور پٹھوں تکلیف سے درد میں مدد ملتی ہے،سوزش اور درد اور تکلیف کم ہو جاتی ہے


لیمن گراس کی چائے پینے سے حیض درد اور متلی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔لیمن گراس عام طور پر باورچی خانے میں مچھروں سے چھٹکارا حاصل کرنیکاخوشبودار پودا ہے،لیمن گراس عام طور پر مصالحہ کے طور کھانوں میں استعمال کرنے کا ایک خوشبودار پودا ہے
لیمن گراس کے پتے میں خاص مہک ہوتی ہے آپ اس کی چائے بنا سکتے ہیں۔ ایک چمچہ بھر پتے ابلتے پانی میں ڈال کر دم بھی دے سکتے ہیں۔لیمن گراس کا سوپ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یخنی بناتے وقت چند پتے ڈالنے سے مزا دوچند ہو جاتا ہے


لیمن گراس کے پتے کھایئے تھکن ہومعدے کی خرابی ہو تو اس کی چائے بنا کر پیجئے طبیعت صحیح ہو جائے گی اس میں چینی کے بجائے شہد ملا کر پینے سے فلو بخار میں فائدہ ہوتا ہے کھانسی کم ہو جاتی ہے۔ چاولوں کو دم دیتے وقت لیمن گراس کے پانچ چھ پتے ڈالنے سے جب ڈھکنا ہٹتا ہے تو خوشبو پھیل جاتی ہے۔لیمن گراس ٹی کولیسٹرول اور جسم کی فالتو چربی کا دشمن ہے، یہ موٹاپا بھگانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا سستا پودا گھر میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ لیمن گراس کا پودا مچھر بھی دور بھگاتا ہے۔
اسے ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کیلئے بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ کیل مہاسوں کو کم کرنے میں ایک ریفریشر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے جوس سے دوران خون حیض کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ جسم میں ضرورت سے زیادہ چربی سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے ،جسم کی بدبو مختلف بیماریوں کے علاج میں مدد کر سکتے ہیں اورگرمی کو کم کرنے میں مفید ہے۔


ہمارے جسم کے دیگر اعضا کو صاف اور زہریلا مادہ کو ختم کر سکتے ہیں۔ خواتین کی صحت جلد اور جسم کی بدبو جیسی بیماریوں کے علاج میں مدد ملتی ہے،چہرے کے کیل مہاسے ختم ہوجاتے ہیں چہرہ خوبصورت شاداب ہوجا تا ہےیہ قہوہ ذائقہ دار ہوتا ہے لیکن اس سے نظام ہضم کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔مرغن کھانے کے بعد اس قہوہ کی چند چسکیاں لکڑ ہضم کردیتی ہیں ۔ قبض اور گیس کا مسئلہ دور کرتا ہے۔لیمن گراس سے جسم سے غیر ضروری زہریلے مادے خارج ہوجاتے ہیں جبکہ ہائی بلڈ پریشر کو نارمل کرتا ہے۔ یہ خون کی روانی بحال رکھتا ہے جس سے شریانین تنگ نہیں ہوپاتیں۔


لیمن گراس کے قہوہ کو میٹابولزم میں بہتری لانے کے لئے استعمال کرایا جاتا ہے۔ موٹاپا کم کرتا ہے ۔اس میں وٹامن اے اور سی کی کافی زیادہ مقدار ہوتی ہے جس سے بالوں اور جلد کی چمک برقرار رہتی ہے۔ چہرے پر چھائیاں اور دانے نہیں بنتے ۔نزلہ زکام سے بچاتا ہے ۔

Help your kids in selection of their profession


اپنے بچّوں کی درست پیشے کے انتخاب میں مدد کریں لیکن بغیر کسی دباؤ کے۔

ایلزبیتھ لیمے واشنگٹن پوسٹ

ترجمہ اعظم علی

الیزا وینسٹین یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اپنی 4 سالہ بیٹی میا سے پیشوں کے بارے میں بات کرے گی۔ لیکن جیسے ہی موقعہ ملا اس بے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ وہ ایک سُپر اسٹور میں تھے اور وہ اپنے لئے lip gloss کی ضد کررہی تھی۔

وینسٹین نے مزاقیہ انداز میں کہا کہ جاؤ اور کما کر خریدو۔ اس نے یہ کہ تو دیا لیکن اچانک ہی اسکے ذہن کی بتیاں روشن ہو گئیں یہ تو بچّے کی تربیت کا بہتر طریقہ ہے۔

گھر آکر اس چیز کو ایک کاغذ پر لکھ کر دیوار میں چپکا دیا۔ پھر بجائے جیب خرچ دینے کے بچّوں سے گھر کےمختلف کام لیکر ان کی “مزدوری” دینی شروع کردی سب سے پہلی “جاب” یہ دی کہ اپنے والد کی مصنوعات (اسکے والد آئسکریم کا کاروبار کرتے تھے) کے لئے مارکیٹ ریسرچ کی جائے۔ اس نے 15 رشتے داروں اور دوستوں سے ان کے تین پسندیدہ آئس کریموں کے ذائقے کا پوچھا اور اس کے نتائج اپنی والدہ کو پیش کئیے اور انہوں نے اسے اس کی “اُجرت” ادا کردی۔

اس سےمیا کو بھی دلچسپ پیشوں کے بارے میں علم حاصل ہوا اور اس کے ساتھ اسے پیسے کی قدر بھی پتہ چلی۔وینسٹین نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے بچّوں کو دلچسپ انداز سے کیرئیر اور ملازمتوں کے بارے کی طرف متوجہ کرنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔

اس نے تقریباً 50 ماہرین سے ملاقات کرکے تبادلہ خیال کیا اور بچّوں کی “مزدوری” کے لئے مناسب کاموں کی فہرست بنائی اور ایک ورک بُک بھی تیار کی جس کا نام Earn it, Learn it یعنی (کماؤ اور سیکھو )۔ یہ ورک بُک 12 سال سے کم عمر کے بچّوں کے لئے ہے۔ لیکن بہت سے طریقے ہیں کہ بڑی عمر کے بچّوں کی بھی حوصلہ افزائی اور کیرئیر کے تجربے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

بچّوں کے لئے ان کی شخصیت کے مطابق پیشے کی تلاش میں مدد کرنے کے لئے چند رہنما اصول ہیں۔

مدد کرو لیکن ان کے سر پر مسلط نہ ہو جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو بطور بنیادی پتھر تصور کریں۔ آپ اپنے بچّوں کو آگے بڑھائیں اور ان سے تعاون کریں تاکہ وہ اپنے لئے اپنے خوابوں کے مطابق پیشہ تلاش کر سکیں۔ ان کے ساتھ تعاون و مدد دیں لیکن امکانات پر غور کرنے اور فیصلے کا کام ان پر چھوڑ دیں۔

آپ نے ہیلی کاپٹر والدین کا سُنا ہوگا جو اپنے 20سال سے بڑے بچّوں کو انٹرویو کے لئے بھی لے جاتے ہیں۔ (میں بھی ہیلی کاپٹر والد تھا😀) لیکن آپ ایسا ہرگز نہیں کریں آپ پشت پناہی کریں لیکن ان کے سر پر مسلط نہ ہوں اور نہ ہی انہیں ہر قدم پر ہاتھ پکڑ کر چلائیں۔ اس معاملے میں ان کی خوشیوں اور کیرئیر کا سوال ہے، اب وقت آگیا ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اپنے فیصلے کریں۔

ان سے بات کریں۔۔ لیکن ان کی ترجمانی نہ کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچّوں سے کم عمری میں ہی اپنی ملازمت، پیشہ وارانہ زندگی کی کامیابی و مشکلات کے بارے میں گفتگو کریں۔ انکوپیشوں کی زبان (مخصوص الفاظ جو آفس میں روزمرہ میں استعمال ہوتے ہیں سے متعارف کرائیں۔

انہیں، سی وی، کور لیٹر، cover letter جاب انٹرویو تنخواہ اور ترقی کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔

یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ آپ بچّوں کے سی وی خود بنالیں بجائے اس کے انہیں اس کا طریقہ سکھایا جائے۔ لیکن خود کو روکیں یہ سب سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے۔ مجھے ایک والد نے شکریہ کا خط لکھا کہ میں نے اس کے بیٹے کو اپنا دفتر دیکھنے کا موقعہ دیا تو میں نے انتہائی نرمی سے والد کو مشورہ دیا کہ بجائے والد کے بیٹے کو یہ خط لکھنا چاہیے تھا۔

بچّوں کی مضبوطی اور طاقت کی شناخت کریں نہ کہ کیرئیر کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین نفسیات اسے مضبوطی کی شناخت کہتے ہیں ، چونکہ آپ اپنے بچّے سے بخوبی واقف ہیں آپ یقیناً اس معاملے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اپنے بچّوں کی توجہ دلائیں کہ کونسی چیزیں وہ انتہائی چھوٹے درجے سے بہتر کرسکتے ہیں۔

کن حالات میں آپکا بچّہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، اکیلا۔۔۔چھوٹے گروپ یا بڑے گروہ کے ساتھ؟

یہ ساری صلاحیتیں اور ترجیحات مستقبل کے ممکنہ کیرئیر کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ مزید تحقیقات کے لئے اپنے بچّوں کو پرسنالٹی ٹیسٹ یا strong interest inventory قسم کے ٹیسٹ کروائیں۔

مثال کے طور پر اگر آپکا بچّہ بولنے سے پہلے سوچ سمجھ کر جملے ترتیب دینے کا عادی ہے تو آپ بہ آسانی یہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ وہ ایک کامیاب وکیل بن سکتا ہے لیکن یہی صلاحتیں ۔ اخبار نویس، اینکرز، اور کئی دیگر شعبوں میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ اسلئے انہیں کسی ایک مخصوص شعبے میں دھکیلنے کی بجائے۔انکی فطری صلاحیت کو تلاش کریں اور اسکی مطابقت سے کسی بھی پیشے کا انتخاب ان پر چھوڑ دیں۔

تمام ممکنہ پیشوں کی فہرست کو دیکھیں، نہ کہ صرف وہ کیرئیرز جن سے آپ واقف ہیں دیکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطور والدین ہم دنیا کی تمام موجود ملازمتوں کے بارے میں علم رکھنے کا دعوی نہیںُ کرسکتے۔ بالخصوص وہ ملازمتیں جن کا آپکی پیشہ روانہ زندگی کی ابتداءً میں وجود بھی نہیں تھا۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم خود بچّوں کو کسی مخصوص کیرئیر کی طرف نہ دھکیلیں۔

بچّوں کے لئے اپنے رابطے استعمال کریں۔ لیکن اپنا شعبہ نہ ٹھونسیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بچّہ آپ کو اپنی دلچسپی کے شعبوں کی طرف اشارہ کردے تو آپ اپنے رابطے استعمال کرکے مدد کرسکتے ہیں۔ آپ ان کی مدد کرکے اس شعبے کے کسی ماہر سے ملاقات کرا سکتے ہیں یا ایک آدھ دن کے لئے اسکے ساتھ لگوا سکتے ہیں تاکہ اس چیز شعبے کے کام اور ماحول کو عملی طور پر محسوس بھی کرسکیں۔

اگر آپ ان کے لئے کوئی mentor (مشیر، صلاح کا) اپنے رابطوں کو استعمال کرکے کوئی انٹرنشپ تلاش کرسکیں تو بہت اچھا ہوگا۔لیکن اس سے آگے مت جائیے۔

اپنی اولاد کو اپنے ہی نقش قدم پر اپنے شعبے میں جانے کے لئے دباؤ ڈالنا بمشکل ہی کام کرتا ہے۔ اگر وہ واقعی آپکے نقش قدم پر چلنا چاہیں تب بھی وہ اس بات سے خوش و مطمئن ہوں گے کہ یہ فیصلہ انکا اپنا تھا۔

چھٹیوں کے درمیان انٹرنشپ کی حوصلہ افزائی کریں لیکن ضروری نہیں کہ وہ کُل وقتی انٹرنشپ ہی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی کام اور شعبے کو یقینی طور پر پسند اور ناپسند کے بارے میں جاننے کے لئے انٹرنشپ سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ چھٹیوں کی انٹرنشپ مختلف پیشوں کے بارے میں اپنی صلاحیتوں اور پسند نا پسند کا امتحان لینے کا شاندار طریقہ ہے۔

لیکن انہیں باتنخواہ یا کل وقتی انٹرنشپ کے لئے دباؤ نہ ڈالیں اگر چھٹیوں میں جزوقتی انٹرنشپ بھی اسے مخصوص پیشے کے بارے میں بتا سکتی ہے کہ کیا وہ واقعی اس لائن کے بارے میں اپنا شوق برقرار رکھ سکتا ہے؟؟

ممکن ہے ایک سے زائد انٹرنشپ مختلف پروفیشنز کے بارے میں اسے اپنا “سچّا شوق و جنون” تلاش کرنے میں مدد دے۔ کچھ بھی ہو بظاہر بے کار ملازمتیں جیسے ہوٹل کی بیرا گیری یا کچھ اور بھی انتہائی قیمتی سبق دیتی ہیں جیسا کہ ملٹی ٹاکسنگ (بیک وقت کئی چیزوں کو سنبھالنا) اور ذمہ داری نبھانے کی صلاحیت۔

شوق و جنون (Passion) والے پیشوں کی طرف رہنمائی کریں نہ کہ prestige والی ملازمتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والدین نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں کچھ بھی کوئی بھی ایسی چیز تلاش کروں جو مجھے شوق و جنون کی حدتک پسند ہے۔ اور میں انکی مشکور ہوں۔۔ہم ہفتے میں چالیس سے زیادہ گھنٹے کام ہر خرچ کرتے ہیں۔۔ اور ہمیں وہ کام پسند ہونا بلکہ ہمیں اس سے محبت ہونی چاہیے۔

ایک زمانے میں سب والدین اپنے بچّوں کو ڈاکٹر ، انجینئر یا وکیل بنانا چاہتے تھے۔ شاید سب والدین اپنے بچّوں کے لئے کوئی جاب یا کیرئیر کا خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن خود سے سوال کریں اگر انہوں نے یہ سب کچھ حاصل کرلیا لیکن وہ خوش ہوں گے یا نہیں ۔۔ وہ جو بھی کررہے ہیں اگر اس شعبے وہ خوش اور مطمئن ہیں یہ سب سے اہم ہے۔

Sagu dana


ساگودانہ (غذائیت سے بھر پور):

ساگو دانہ چھوٹے چھوٹے سفید رنگ کے موتیوں جیسے دانے ہوتے ہیں۔ یہ ایک درخت کے تنے سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جسے( tapioca pearl)۔ ہندی، پنجابی اور بنگالی میں سابو دانہ کہا جاتا ہے۔
درخت پر پھل آنے سے پہلے اس کا گودا کاٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے خشک کر کے محفوظ کرتے ہیں۔ یہ گول دانے ہوتے ہیں جو بے بو اور سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس کا ذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔

حکما اور اطبا نے ساگو دانہ کی افادیت اور بطور غذا اس کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

ساگو دانہ ملاکو کے جزیروں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔جبکہ فلیگا نامی جزیرہ ساگو دانہ کی کاشت اور پیداوار کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ ساگو دانہ نیو گنی میں بھی کاشت کیا جاتا ہے۔

ساگو دانہ میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:
ساگو دانہ کاربوہائیڈریٹ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔اس میں پروٹین کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ وٹامن کے، وٹامن بی کمپلیکس، کیلشیم،پوٹاشیم، زنک، آئرن اورفائبر، فولک ایسڈسے بھرپور ہوتا ہے۔

ساگو دانہ کے طبی فوائد:
غذائیت سے بھر پور ساگودانہ کی افادیت سے سب ہی واقف ہے۔ یہ تقریباً دو ہزار برس سے انسان استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے حیرت انگیز طبی فوائد بہت سے ہیں۔

ہڈیوں کی نشوونما:
کیلشیئم، آئرن اور فائبر سے بھر پور ساگودانہ ہڈیوں کی صحت اور مرمری ہڈیوں کی لچک کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے استعما ل سے تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ ساگودانہ کو بچوں کی ابتدائی غذا میں شامل کرنے سے بچوں کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور قد میں اضافہ ہوتا ہے۔

پیدائشی نقائص:
غذائی اجزا کی کمی اور غلط ادویات کا استعمال اکثر بچوں میں پیدائشی نقائص کا سبب بن جاتا ہے۔ ساگو دانہ میں پایا جانے والا فولک ایسڈ اور وٹامن بی 6 بجوں کی بہترین نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین حاملہ خواتین کو ساگو دانہ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

پٹھوں کی افزائش:
ساگودانہ پروٹین کی بھر پور مقدار فراہم کرتا ہے۔ ساگودانہ کے استعمال سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور متاثرہ پٹھوں کی افزائش ہوتی ہے۔ ساگو دانہ کو روز مرہ کی غذا میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

متوازن بلڈ پریشر:
ساگو دانہ پوٹاشیم کی بھر پور مقدار پائے جانے کے سبب خون کی گردش متوازن رکھتا ہے جس سے دل کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ ساگو دانہ کے استعمال سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بی پی کے مریضوں کے لیے ایک دن میں ایک کپ سادہ پکا ہوا ساگو دانہ تجویزکیا جاتا ہے۔ اس کے باقاعدگی کے استعمال سے با آسانی بلڈ پریشر کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

طاقت و توانائی کا ذریعہ:
ورزش یا دیگر سخت جسمانی سرگرمیوں میں زیادہ دیر تک مشغول رہنے والے افراد کے لیے ساگو دانہ بے حد مفید ہے۔ اس کے استعمال سے تھکن کم ہوتی ہے اور کمزوری دور ہوتی ہے۔ مسلز بنانے کے شوقین افراد اسے اپنے ناشتے میں شامل کر سکتے ہیں۔ دن کے آغاز میں اسے کھانے سے تا دیر بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور انسان خود کو ہلکا اور طبیعت مثبت محسوس ہوتی ہے۔

وزن میں اضافہ:
وزن بڑھانے کے خواہشمند افراد ساگودانہ کا دودھ کے ساتھ روزانہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ساگودانہ کھانے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ غذائی ماہرین ساگو دانے کو سپلیمنٹس سے بھی زیادہ صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔

قد میں اضافہ:
اگر آپ بڑھنے والے بچو ں کوساگودانہ کھلائیں تو اسکے باقاعدہ استعمال سے آپکے بچوں کے قدمیں اضافہ ہوسکتاہے۔بچوں کے لئے یہ بے حد فائدہ منداورقد میں اضافہ کے لیے بہترین غذا ہے۔

نظام ہاضمہ:
نظام ہاضمہ اور آنتوں کی صحت کے لیے ساگو دانہ بے حد مفید ہے۔ اس سے معدے کے مسائل جیسے کہ قبض، بدہضمی اور گیس وغیرہ کے ساتھ کولیسٹرول کی سطح کو بھی بہتر بنا تا ہے۔ ساگودانہ جسم کی اضافی چربی بھی پگھلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

ساگودانہ کے استعمال کے طریقے:
اسے کھیر، پڈنگ، سوپ، کیک، پین کیک، بریڈ، کھچڑی اور بائنڈنگ یعنی کسی بھی غذا کو گاڑھا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خالی دودھ یا پانی میں پکا کر بھی استعمال کیاجاسکتاہے اورگاڑھاہونے پر حسب ضرورت چینی ملا کر استعمال کریں۔
بچے اگر اسے کھانا پسند نہ کریں تو ساگو دانہ کو دودھ میں ابال کر چھان کر الگ کر لیں، اب یہ دودھ بچوں کو پلایا جا سکتا ہے۔
اسے آلو میں ملا کر اس کے کٹلس بھی بنائے جا سکتے ہیں۔!

Death certificate application procedure


🔴 #ڈیتھ/#وفات #سرٹیفکیٹ بنوانے کا #طریقہ کار

ڈیتھ/وفات سرٹیفیکیٹ گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس میں فوت ہونے والے شخص کا نام، پتہ، وفات کی تاریخ اور وجہ وفات درج ہوتی ہے۔ فوت شدہ کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا زندہ انسانوں کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ وارثت کی تقسیم تب ہی ممکن ہوتی ہے جب اس شخص کے قانونی وارثان ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروائیں گے. اسی طرح اس شخص کا قانونی کاغذات میں مردہ ثابت ہونا بھی بہت ضروری ہے تانکہ کہیں بعد میں کوئی اور شخص اس فوت شدہ شخص کے نام پر فراڈ نہ کرسکے.

🔴 ڈیتھ/وفات سرٹیفکیٹ بنوانے کا طریقہ کار؟

ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا فارم انٹرنیٹ سے یا متعلقہ یونین کونسل سے مل جاتا ہے. فوت شدہ شخص کا خونی رشتہ دار یہ فارم حاصل کرے گا۔ اس کو پر کرنا ہوگا۔ اسی فارم پر اس مولوی صاحب یا اس شخص کا بیان ریکارڈ ہوگا جس نے نماز جنازہ پڑھایا تھا، سائن انگوٹھے لگیں گے اور اگر سرکاری قبرستان ہے تو گورگن کا نام پتہ اور دو گواہوں کا نام سائن انگوٹھا اور جو شخص جاری کروانا چاہتا ہے اس کا فوت ہونے والے شخص سے رشتہ۔ یہ فارم پر کرنے کے بعد متعلقہ یونین کونسل میں جا کر جمع کروا دیں، چند دنوں میں آپکو سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس 200 روپے ہے.

🔴 اگر وفات کو 2 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تو؟

اگر وفات کو 2 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس صورت میں آپکو عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔ عدالتی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ متعلقہ یونین کونسل جاری کرے گی۔ یاد رہے ڈیتھ سرٹیفکیٹ زندہ انسانوں کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر متوفی کے قانونی وارثان کے لیے۔ انکی وراثت کا انتقال اگر مرنے والے کی بینک میں رقم موجود ہے، اگر مرنے والے کی گاڑی ہے، گھر ہے، انشورنس کی رقم ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی قانونی وارثان کو ملے گا جب وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش کریں گے متعلقہ اداروں کو اور ان سب معاملات سے ہٹ کر بھی مرنے والے شخص کے نام پر ہونے والے فراڈ کو روکنے کے لیے بھی سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری ہے۔ کئی کیسز میں دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا تھا اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد زمین منتقل ہوتی ہے اس مرنے والے شخص کی طرف سے جعلی انگوٹھے بیان لکھ کر. اب عدالت میں اس شخص کو مرا ہوا ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب تک اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنا تھا. اس لئے چاہے برتھ سرٹیفکیٹ ہو یا ڈیتھ ہمیشہ ہر کام وقت پر کریں

Transfatty acids


(مصنوعی چکنائی)
مصنوعی چکنائی کا استعمال، پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شامل

سنہ 2018 میں عالمی ادارہ صحت نے دنیا کے تمام ممالک کو مضرصحت ٹرانس فیٹی ایسڈ کا 2023 ء تک خاتمہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سبب یہ ہے کہ ان فیٹی ایسڈ سے دل کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ امراض قلب کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اترنے والے انسانوں کی شرح سالانہ 5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 16 میں سے 9 ممالک میں ’ ٹرانس فیٹی ایسڈ ‘ سے پیدا ہونے والے امراض قلب کے باعث اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا ، آذربائیجان، بھوٹان، ایکواڈور، مصر، ایران، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ یہ ممالک بہترین احتیاطی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔
تاہم 43 ممالک نے ، جن کی مجموعی آبادی 2 ارب 80کروڑ ہے، موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بہترین احتیاطی پالیسیاں اختیار کی ہیں تاہم دنیا کا زیادہ تر حصہ اب بھی غیر محفوظ ہے
ٹرانس فیٹ ایسڈ کیا ہے ؟

ٹرانس فیٹ کو ’ ٹرانس اَن سیچوریٹیڈ فیٹی ایسڈز‘ یا پھر ’ ٹرانس فیٹی ایسڈز ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف سبزیوں وغیرہ سے نکالا جانے والی ایسی چکنائی ہوتی ہے جو ڈبہ بند کھانوں ، کیکس ، ہاٹ چاکلیٹس وغیرہ میں شامل ہوتی ہے تاکہ وہ طویل مدت تک دکانوں کی شیلفوں میں محفوظ رہیں۔ جب سبزیوں وغیرہ سے ٹرانس فیٹ نکالا جاتا ہے، تب اس کی شکل تیل جیسی ہوتی ہے۔

پھر اسے ٹھوس چکنائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں ایسی ٹھوس چکنائی مارجرین اور بناسپتی گھی کی صورت میں بازاروں میں فروخت ہوتی ہے۔

سبزیوں سے نکالی جانے والی چکنائی (بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ) کا استعمال قریباً 100برس قبل شروع ہوا۔1950ء کے بعد اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا۔اس کے مضر اثرات کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ اس وقت کی حکومتیں بھی جانتی تھیں کہ ٹرانس فیٹ میں غذائیت برائے نام بھی نہیں ہوتی ، بلکہ اسے صرف سستا ہونے کی وجہ سے مختلف کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
آج تک دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹرانس فیٹ کے انسانی صحت کے لئے نقصانات واضح ہونے کے باوجود اسے استعمال کیا جاتا رہا ۔
ء میں امریکا میں، امراض قلب میں مبتلا ہوکر انتقال کرنے والے 30000 افراد کے بارے میں پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی تھی۔
تب ماہرین نے اندازہ لگایا کہ 2006ء تک اس مصنوعی چکنائی کے سبب مرنے والوں کی تعداد سالانہ ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد حکومت اس مصنوعی چربی کے استعمال کے خلاف فعال ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی چکنائی کے سبب جسم میں غیر مفید کو لیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ فیٹی ایسڈز ریسٹورنٹس میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ جس علاقے میں لوگ ایسے ریسٹورنٹس میں زیادہ کھاتے پیتے ہیں ، وہاں موٹاپا ، بلند فشار خون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے امراض زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
تمام ماہرین کا اتفاق ہے کہ ٹرانس فیٹ کے سبب موٹاپا بالخصوص پیٹ بڑھنے کا مرض لاحق ہوتا ہے۔
آرکائیو آف نیورولوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیچوریٹیڈ فیٹ اور اَن سیچوریٹیڈ فیٹ (ٹرانس فیٹ ‘ کی وجہ سے الزائمر کا مرض پیدا ہوتا ہے
2006ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے سبب پراسٹیٹ کینسر بھی ہوتا ہے۔ ’ یورپین پروسپیکٹو انویسٹی گیشن ان ٹو کینسر اینڈ نیوٹریشن ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرانس فیٹ کے استعمال سیچھاتی کے کینسر کے خطرات میں 75 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔
سن دوہزار سات میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاربوہائیڈریٹس کے بجائے ٹرانس فیٹ سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش خواتین کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں بانجھ پن کے خطرات 73 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
عالمہ ادارہ صحت ایک عرصہ سے مصنوعی چکنائی کے زیادہ استعمال سے خبردار کررہا ہے
خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا۔ انھیں کہا گیا کہ ان کی خوراک میں ٹرانس فیٹ کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ڈنمارک دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ٹرانس فیٹ کے خلاف قانون منظور کیا ، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے کم مقدار میں ٹرانس فیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہے یعنی محض ایک فیصد ۔ ڈینش حکومت کی کوششوں کا نتیجہ یوں نکلا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران میں امراض قلب میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
یورپی یونین نے بھی اپنے تمام خطوں میں ٹرانس فیٹ کے2 فیصد فی 100 گرام سے بھی کم استعمال کا رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی
سویڈن بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہونے جارہا ہے جہاں مصنوعی چکنائی پر مکمل پابندی عائد ہے۔
اگرچہ پاکستان کی وزارت صحت نے بھی عالمی ادارہ صحت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جون2023ء تک ٹرانس فیٹ کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائے گی
دنیا بھر میں ٹرانس فیٹ کے خلاف شعور بلند ہونے کے باوجود یہاں کے ماہرین صحت بھی ایسی پالیسیاں تیار کرنے پر زور نہیں دے رہے جن کے ذریعے خوراک تیار کرنے والوں کو 2فیصد فی 100 گرام کے پیمانے کی پابندی کروائی جائے۔
ہماری حکومتیں دیگر ’’ زیادہ اہم امور‘‘ میں مصروف رہتی ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے پالیسیاں تیار کرنے اور نافذ کرنے کے لئے فرصت نہیں
SaleemBhutta

How to start a milk shop


السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکۃ!
محترم بھائی پہلے آپ خود کسی ملک شاپ پر ایک ماہ کام کرو کام سیکھو اچھے سے اس ایک ماہ کے دوران آپکو خود پتہ چل جائے گا کہ کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے کیا منافع ہے اور کیا نقصان ہے.
ملک شاپ بنانے کے لیے زیادہ پیسے درکار نہیں ہیں دکان کا ایڈوانس دینے کےبعد ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ خرچہ ہوتا ہے جس میں آپ ایک عدد فریزر , ایک عدد کاؤنٹر , ایک برنر, کڑاھا, دہی کے برتن, دو عدد دودھ کے برتن فریزر میں رکھنے کے لیے اور ایک 20 کلو والی ڈرمی دودھ لانے لیجانے کے لیے چند برتن دہی لگانے کے لیے, لسی بنانے والا برتن گلاس , ایک عدد الیکڑانک سکیل اور ایک عدد سٹیل ڈرم, اور پلاسٹک کے ایک دو برتن خریدیں گے یہ ٹوٹل آپ کی انویسٹمنٹ ہوگی اس میں تھوڑی بہت گنجائش ہو سکتی ہے.
دکان بنانے سے پہلے آپکو کسی پارٹی سے بات کرنا ہوگی جو آپ کو روزانہ کی بنیاد پر اچھا اور معیاری دودھ آپ کی دکان پر پہنچائے اور اس میں ناغہ نہ کرے اور اگر کسی دن خدا نہ خواستہ کسی بھی وجہ سے وہ دودھ دینے سے قاصر ہو تو آپکو پہلے مطلع کرے تاکہ آپ اپنا دودھ کا انتظام کر سکیں ( اس کے لیے آپ کو جہاں آپ دکان بنا رہے ہیں وہاں آس پاس کے ہول سیل ڈیلرز کا پتہ ہونا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت ان سے آپ دودھ لے سکیں)
ایک مہینہ کسی دکان پر کام کر کے آپ دہی جمانا سیکھیں گے کیونکہ دودھ دہی کے کام معیاری دودھ کے ساتھ ساتھ اچھا اور میٹھا دہی بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اس سے آپ کی دکانداری کو چار چاند لگ جاتے ہیں.
اب بات کرتے ہیں ڈیوٹی کی اگر آپ صبح 6 سے رات 11 تک دکان کی ٹائمنگ رکھتے ہیں تو یہ 17 گھنٹے بنتے ہیں لیکن آپ کو صبح 5 بجے اٹھنا ہو گا اور رات 12 یا 1 بجے آپ سو سکیں گے تو آپکی ڈیوٹی ٹائمنگ 19 سے 20 یا 21 گھنٹے بھی ہو سکتی ہے.
اس کے لیے آپ کو ایک عدد ہیلپر کی ضرورت پڑے گی جو کہ شروع میں آپ کے لیے رکھنا مشکل ہوگا کیونکہ دکانداری بنتے بنتے دو تین ماہ لگ جائیں گے دو تین ماہ کے بعد آپ ایک ہیلپز کی تنخواہ نکال سکیں گےاپنے کام میں سے. اور اگر انویسٹمنٹ ہے تو آپ تین ماہ تک ہیلپز کی تنخواہ اپنی جیب سے بھی دے سکتے ہیں.
ہیلپر پر مکمل انحصار آپ نہیں کر سکتے ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کب چھوڑ کر چلے جائیں تو بہتر ہوگا شروع میں ہی اپنے بھائی یا بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لگائیں اس سے چھوڑ جانے والی پریشانی بھی ختم اور بے ایمانی والی بھی کیونکہ ملازم پر آپ کیش کے معاملے میں بھروسہ نہیں کر سکتے.
باقی دودھ دہی کے ساتھ آپ مکھن , دیسی گھی , لسی ,بریڈ , انڈے, رس, کیک رس, کولڈ ڈرنکس ,جلیبی اور علاقہ کے حساب سے جہاں آپ دکان بنا رہے ہیں سموسے پکوڑے کا کام بھی اسی ایک شاپ میں کر سکتے ہیں اس سے آپکی انکم میں اضافہ ہوگا کیونکہ اتنی لمبی ڈیوٹی ٹائمنگ میں ایک ہی کام کرنا اور اسی ہر انحصار کرنا بیوقوفی ہے تو یہ کام ساتھ کر لیں گے تو آمدن بڑھ جائے گی.
مزید پھر کہنا چاہونگا کہ پہلے ایک ماہ یہ کام خود سیکھیں اس کی باریکیوں کو جانیں. دہی لگانا سیکھیں خدانخواستہ دودھ خراب ہو جائے تو اس کا حل کیا ہے یہ سیکھیں اور پھر اسی ایک ماہ کے دوران دودھ کے ڈیلرز کے ساتھ اپنے تعلقات بنائیں کم از کم 3/4 ڈیلرز کے ساتھ آپ کی سلام دعا ہونی چاہیے تاکہ ضرورت کے وقت آپ ان سے دودھ منگوا سکیں.
یہ چند. باتیں ہیں بھائی ابھی تو اور بھی بہت کچھ ہے آپ کی رہنمائی کے لیے جو وقت کے ساتھ ساتھ آپکو سمجھ آجائے گا.
شکریہ.
دعاؤں میں یاد رکھیے گا

Up ↑